احکام ستر و حجاب | عبد الرحمان کیلانی
- Friday, December 30, 2016
- Posted by Admin 1 at 9:40 AM
-
0
comments
- Labels: Abdur Rehman Kailani, book, Muhammadi library, Parda
کراچی کا عثمانی مذہب اور اسکی حقیقت
Karachi Ka Usmani Mazhab Aur Uski Haqeeqat by AhlHadees on Scribd
- Thursday, December 29, 2016
- Posted by Admin 1 at 12:08 PM
-
0
comments
- Labels: Jamat al Muslimeen, Khwaja Muhammad Qasim, Muhammadi library, Usmani mazhab
کیا غربا اہلحدیث جماعت اہلحدیث ہے ؟
Aiena Ghurba Ehlhadees by AhlHadees on Scribd
- Posted by Admin 1 at 12:06 PM
-
0
comments
- Labels: Ghurba Ahlhadees, Muhammadi library
کیا قادیانی اہلحدیث تھا ؟ ایک حنفی کی کتاب کا جواب
Ahqaq e haq by AhlHadees on Scribd
- Posted by SHER at 12:02 PM
-
0
comments
- Labels: AbdulGhafoor Asari, Muhammadi library, Qadiyaniat
پیدائشی حافظ قرآن بچے کی حقیقت
- Friday, December 16, 2016
- Posted by SHER at 7:19 AM
-
0
comments
- Labels: Abdus Salam Bhutvi, Aldawah, Mubashir Hassan Rabbani, Qazi Kashif Niaz
ڈاکٹر اسرار احمد جواب دیں
- Posted by SHER at 7:14 AM
-
0
comments
- Labels: Abdus Salam Bhutvi, Dr. Israr Ahmad, Imam Mahdi
تفسیر قرآن | دکتور حماد لکھوی
- Friday, August 5, 2016
- Posted by SHER at 10:59 PM
-
0
comments
- Labels: Dr. Hammad Lakhvi, tafseer Quran
حدیث ثقلین کا مفہوم
حدیث ثقلین کا مفہوم | حافظ شبیر صدیق
رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ یہودیوں کے کل بہتر(72) فرقے بنے تھے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ان تہتر (73) فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ حق پر ہوگا اور باقی سب صراط مستقیم سے بھٹک جائیں گے۔ جو فرقہ ہمیشہ راہ حق پر قائم رہے گا اس کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''راہ حق پر چلنے والے لوگ وہ ہوں گے جو میرے راستے پر اور میرے صحابہ کرام کے راستے پر چلنے والے ہوں گے۔''(جامع الترمذی: 2641)
اس حدیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ بہتر فرقے مسلمانوں ہی میں سے ہوں گے مگر صراط مستقیم سے ہٹ چکے ہوں گے۔ وہ قرآن و حدیث کو ماننے کا اقرار تو کرتے ہوں گے مگر ان سے معنی اور مفہوم اپنی مرضی کا تراشتے ہوں گے۔ زیرنظر مضمون میں ہمارا مقصد ان فرقوں سے متعلق بحث کرنا نہیں بلکہ ایک حدیث کی وضاحت کرنا مقصود ہے جس سے بعض لوگ اپنی مرضی کا معنی و مفہوم لے کر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس سے متعلقہ بحث کریں گے۔
حدیث ثقلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ أَنَا تَارِکٌ فِیکُمْ ثَقَلَینِ: أَوَّلُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیہِ الْھَدْيُ وَالنُّورُ فَخُذُوا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوا بِہِ فَحَثَّ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ۔ ثُمَّ قَالَ: وَأَھْلُ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي‘‘
''میں تم میں دو ثقل چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے پہلا ثقل اللہ کی کتاب ہے۔ اس ثقل میں ہدایت اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ مضبوطی اختیار کرو۔'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کے حوالے سے لوگوں کو ابھارا اور ترغیب دلائی۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ''اور (دوسرا ثقل) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، یعنی اللہ سے ڈراتا ہوں۔'' (صحیح مسلم: 2408) ایک دوسری روایت میں کتاب اللہ کے ساتھ'عِتْرَتِي' کے الفاظ ہیں۔ عترتی سے مراد بھی اہل بیت ہی ہیں۔ (مسند احمد: ۳/۱۴)
ایک غلط استدلال
اس حدیث سے بعض لوگ ایک غلط استدلال کرتے ہیں، بلکہ یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کے تمام مذہب کی بنیاد اس حدیث کا دوسرا حصہ ہے۔ اگران کے مذہب سے اہل بیت کا ذکر نکال دیا جائے تو ان کی پوری کی پوری مذہبی عمارت زمین بوس ہوجائے۔ ان حضرات کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ جس طرح کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اسی طرح اہل بیت کی اتباع و پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اہل بیت میں سے جو بھی شخص جو بھی بات کہے اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث کی آڑ میں وہ سادہ لوح عوام میں اپنے نظریات پھیلاکر انھیں اپنا مذہب اختیار کرنے کی رغبت دلاتے ہیں۔ علم حدیث میں فہم و فراست نہ رکھنے والے افراد ان کے اس حملے کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت برباد کربیٹھتے ہیں۔
غلط استدلال کا رد
مذکورہ حدیث سے ان حضرات نے جو استدلال لیا ہے وہ شرعی نصوص کے خلاف ہے۔ جب ہم اس حدیث کے مختلف طرق دیکھتے ہیں اور حدیث کے الفاظ پر غور کرتے ہیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمسّک کا لفظ کتاب اللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اہل بیت کے بارے میں صرف ان کی عزت و توقیر اور ان کے ساتھ محبت کرنے کی وصیت کی ہے۔ اس بات کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کے ساتھ اپنی سنت کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَینِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہٖ‘‘ (موطا امام مالک: 899/2)
''میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رکھوگے گمراہ نہیں ہوگے، وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔''
''میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رکھوگے گمراہ نہیں ہوگے، وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔''
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ گروہ اس حدیث کو پکڑ کر تو بڑا ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ اہل بیت کی اطاعت کرنا بھی قرآن کریم کی اطاعت ہی کی طرح ہے مگر اس موقف کا حامل فرقہ اس حدیث کو پس پشت ڈال دیتا ہے جس میں خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کا حکم ہے۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے:
’’ فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ ‘‘ (سنن ابن ماجہ: 42)
''فتنوں کے دور میں تم میرے اور میرے صحابہ کرام کے طریقے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔''
''فتنوں کے دور میں تم میرے اور میرے صحابہ کرام کے طریقے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔''
یہ بات بھی یاد رہے کہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کے بارے محدثین علمائے کرام کا منہج یہ ہے کہ ان کی اتباع صرف اسی معاملے میں کی جائے گی جو نبیﷺ کی سنت کی مطابقت میں ہوگا یا پھر آپﷺ کی سنت کی مخالفت میں نہیں ہوگا۔ اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی اسی منہج کے مطابق کی جائے گی۔ البتہ ہمارا اس حدیث کو یہاں بیان کرنے کا مقصد ان حضرات کو یاد دہانی کرانا ہے کہ اگر ہر معاملے میں اہل بیت کی اطاعت واجب ہے تو پھر خلفائے راشدین کی اطاعت تو بالاولیٰ واجب ہے، اس لیے کہ خلفائے راشدین کے ذکر کے ساتھ تو رسول اللہﷺ نے سنت کا لفظ بھی ذکر کیا ہے جو اہل بیت کے ذکر کے ساتھ منقول نہیں ہے۔ اس لیے ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ خلفائے راشدین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی عزت و توقیر کریں اور ان کے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں۔
امام مناویؒ حدیث کے الفاظ ((عِتْرَتِي اَھْلِ بَیْتِي)) کے ذیل میں لکھتے ہیں: ''رسول اللہﷺ کی ان الفاظ سے مراد یہ ہے کہ اگر تم کتاب اللہ کے اوامر کی پیروی کرو، اس کی نواہی سے اجتناب کرو اور میرے اہل بیت کے طریقے سے رہنمائی لو اور ان کی سیرت کی اقتداء کرو تو تم ہدایت پاجائو گے اور گمراہ نہیں ہوگے۔'' (فیض القدیر للمناوي: 36/11)یعنی اوامر و نواہی میں اطاعت صرف کتاب اللہ کی ہے۔ اہل بیت کے طریقے سے صرف راہنمائی لی جائے گی تاکہ کتاب و سنت کا جو فہم ہے اسے صحیح طرح سے سمجھا جاسکے۔ واللہ اعلم
لفظ ''عترتی'' سے مراد تمام اہل بیت ہیں؟
درج بالا حدیث کی وضاحت میں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ لفظ ''عترتی'' سے مراد کون لوگ ہیں۔ ائمہ محدثین نے اس حوالے سے جو وضاحت کی ہے وہ درج ذیل ہے:
امام حکیمؒ فرماتے ہیں: ''عترتی'' سے مراد باعمل علماء ہیں، اس لیے کہ وہ قرآن سے جدائی اختیار نہیں کرتے۔ باقی رہے وہ لوگ جو جاہل ہیں یا علمائے سوء ہیں تو وہ اس مقام افضلیت سے بہت دور ہیں۔ اصل چیز تو یہ دیکھی جاتی ہے کہ کون ساشخص اچھے خصائل سے آراستہ ہے اور اپنے آپ کو برے اخلاق سے بچائے ہوئے ہے۔ علم نافع اہل بیت کے علاوہ اگر کسی اور کے پاس ہو اور چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کی اتباع کرنا بھی ہم پر لازم ہے۔ (فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیہ: 2984/5)
امام طحاویؒ فرماتے ہیں: عترۃ سے مراد نبیﷺ کے اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو آپﷺ کے دین پر قائم ہیں اور آپﷺ کے اوامر کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ (فتاویٰ یسألونک: 164/2)
ملاعلی القاریؒ لکھتے ہیں: ''عترۃ سے مراد اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو اہل علم ہیں، آپﷺ کی سیرت پر مطلع ہیں، آپ ﷺ کے طریقے سے واقف ہیں اور آپﷺ کے اوامر اور سنت کو جانتے ہیں۔'' (فتاویٰ یسألونک: 164/2)
ملاعلی القاریؒ لکھتے ہیں: ''عترۃ سے مراد اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو اہل علم ہیں، آپﷺ کی سیرت پر مطلع ہیں، آپ ﷺ کے طریقے سے واقف ہیں اور آپﷺ کے اوامر اور سنت کو جانتے ہیں۔'' (فتاویٰ یسألونک: 164/2)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن اہل بیت کی اطاعت کی جائے گی ان سے مراد وہ اہل بیت ہیں جو اہل علم ہیں اور نبیﷺ کے طریقے پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔ اگر کسی شخص کا نسب نامہ اہل بیت سے تو جاملتا ہے مگر وہ بدعات و خرافات میں لت پت ہے تو اس کی اطاعت تو کجا ان بدعات و خرافات کی بناپر اس سے بیزاری کا اعلان بھی کیاجائے گا۔
اہل بیت سے محبت جزوایمان ہے
اہل السنہ والجماعہ (اہل الحدیث) کا ہمیشہ یہ منہج رہا ہے کہ نبیﷺ کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی سے محبت بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ افضل الامّہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر ایک عام صحابی تک سب سے محبت کرنا ہم پر فرض ہے۔ البتہ صحابہ و صحابیات میں سے بعض شخصیات ایسی ہیں جو بہت زیادہ محبت کی مستحق ہیں۔ جس طرح ایک شخص محبت تو اپنے سب رشتے داروں سے کرتا ہے مگر بعض سے کچھ زیادہ ہی محبت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں محبت تو تمام صحابہ کرام سے ہے مگر نبیﷺ کی اہل بیت کے بارے میں خاص وصیت کی بنا پر وہ ہماری بہت زیادہ محبت کے مستحق ہیں۔
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے بڑی تاکید کے ساتھ یہ وصیت فرمائی ہے۔ یہ تاکید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کے اہل بیت کی عزت و توقیر کی جائے، ان کا احترام بجالایا جائے اور ان کے ساتھ دلی محبت کی جائے۔'' (حدیث الثقلین وفقھہ للدکتور علی السالوس: 25/1)
اہل بیت کون...؟
محترم قارئین! درج بالا حدیث کے ذیل میں اس بات کی وضاحت بھی فائدے سے خالی نہیں کہ اہل بیت میں کون کون سے افراد آتے ہیں۔ اس نزاع کو حل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک مخصوص گروہ اپنے افکار و نظریات کے پیش نظر چند ایک افراد کو اہل بیت میں شمار کرتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ بعض صحابیات سے بغض و عناد کی بنا پر وہ گروہ انھیں اہل بیت میں سے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس گروہ کا موقف یہ ہے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت: {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} سے مراد صرف سیدنا علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔ وہ ازواج مطہرات کو اہل بیت میں شمار نہیں کرتے۔ ان کا یہ موقف کئی وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔
اگر آیت کا سیاق و سباق دیکھ لیا جائے تو یہ بات باآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ اس آیت کا اصل مصداق ازواجِ مطہرات ہی ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث کے بہت سارے دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
یہ حضرات صحیح مسلم کی ایک حدیث اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ حدیث یوں ہے کہ نبیﷺ نے ایک دن سیدنا علی و فاطمہ اور حسن و حسین کو اپنے اوپر لی ہوئی چادر میں لیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} ''اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم سے غلاظت کو دور کردے اور تمھیں بالکل پاک و صاف کردے۔'' (صحیح مسلم: 2424)
یہ حضرات صحیح مسلم کی ایک حدیث اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ حدیث یوں ہے کہ نبیﷺ نے ایک دن سیدنا علی و فاطمہ اور حسن و حسین کو اپنے اوپر لی ہوئی چادر میں لیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} ''اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم سے غلاظت کو دور کردے اور تمھیں بالکل پاک و صاف کردے۔'' (صحیح مسلم: 2424)
ان کا استدلال یہ ہے کہ نبیﷺ نے صرف ان چاروں کو چادر میں داخل فرمایا اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ اگر کوئی اور بھی اہل بیت میں شامل ہوتا تو نبیﷺ اس کو بھی چادر میں داخل کرتے۔
ان کا یہ استدلال دلائل سے عاری اور بالکل بے معنی ہے۔ جب ہم اس حدیث کے مختلف طرق دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس موقع پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کرنے پر آپﷺ نے فرمایا تھا کہ تم تو اہل بیت ہو ہی البتہ یہ بھی اہل بیت میں سے ہیں۔ (المستدرک للحاکم: 278/3)
شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں: ''حدیث الکساء سے سورۃ الاحزاب کی اس آیت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ یہ چاروں شخصیات بھی شامل ہیں، اس لیے کہ اہل بیت میں اصل ازواجِ مطہرات ہی ہیں۔'' (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:280/4)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل بیت میں اصل ازواجِ مطہرات ہیں۔ اسی طرح اہل بیت میں وہ تمام لوگ بھی ہیں جن کے لیے صدقے کا مال حلال نہیں۔ واللہ اعلم
محض دعویٰ محبت فائدہ نہیں دے گا
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اہل بیت کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا نسب بھی ان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا اہل بیت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا مگر وہ اپنے آپ کو ''سید'' کہلوانا شروع کردیتے ہیں۔ سید کہلوانے کا عام سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق بھی اہل بیت کے ساتھ ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اہل بیت سے نہ تو محض دعویٰ محبت سود مند ہے اور نہ ہی زبردستی ان کے ساتھ تعلق جوڑنا کچھ فائدہ دے گا۔ بلکہ یہ محبت اسی وقت فائدہ دے گی جب ان سے حقیقی محبت ہوگی اور شرعی دلائل کی روشنی میں ان کے نقشِ قدم پر چلا جائے گا۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ((مَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ)) ''جس شخص کے عمل نے اسے پیچھے چھوڑ دیا اس کا نسب اسے آگے نہیں پہنچاسکے گا۔'' (صحیح مسلم: 2699) یعنی کامیاب ہونے کے لیے عمل صالح کا ہونا ضروری ہے۔ ایسا عمل جو قرآن و حدیث کے مطابق ہو نہ کہ اپنی خواہشات پر مبنی ہو۔
- Friday, April 22, 2016
- Posted by SHER at 8:40 PM
-
0
comments
- Labels: Hafiz Shabbir Siddiq, حدیث ثقلین کا مفہوم
عدم رفع الیدین پر نئی کاوش
عدم رفع الیدین پر نئی کاوش | مولانا غلام مصطفی ظہیر امن پوری
نماز شروع کرتے،رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے آغاز میں رفع الیدین کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر سنت ہے،جس کا نسخ کسی معتبر حدیث سے ثابت نہیں۔ ہمارے دَور کے بعض لوگ،جو دلائل سے تہی دست ہیں، انہوں نے ایک جھوٹی، مردود اور شاذ روایت پیش کر کے رفع الیدین کی صحیح ترین اور متواتر احادیث کو ردّ کر دیا ہے۔
جھوٹی روایت :
قَالَ الْإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ : حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ : قَالَ لِي عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ یَحْیٰی : حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ سَوَادَۃَ (عَنِ) ابْنِ عَبَّادٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ بِمَکَّۃَ، نَرْفَعُ أَیْدِیَنَا فِي بَدْئِ الصَّلَاۃِ وَفِي دَاخِلِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ الرُّکُوعِ، فَلَمَّا ھَاجَرَ النَّبِيُّﷺ إِلَی الْمَدِینَۃِ؛ تَرَکَ رَفْعَ الْیَدَیْنِ فِي دَاخِلِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ الرُّکُوعِ، وَثَبَت عَلٰی رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِي بَدْئِ الصَّلَاۃِ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے منسوب ہے : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھے تو نماز کے آغاز میں اور نماز کے اندر رکوع کے وقت بھی رفع الیدین کیا کرتے تھے، لیکن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر رکوع کے وقت والا رفع الیدین چھوڑ دیا ،جبکہ نماز کے شروع والے رفع الیدین کو برقرار رکھا۔‘‘ (أخبار الفقہاء والمحدثین، ص: 214، ت : 378)
تبصرہ :
یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے،کیونکہ :
٭ اس کو گھڑنے والا عثمان بن محمد بن یوسف ازدی قُرّی ابو اصبغ ہے۔اس کے بارے میں حافظ ابو ولید،ابن فرضی(م : 403ھ) لکھتے ہیں: [وَکَانَ کَذَّابًا] ’’یہ پرلے درجے کا جھوٹا شخص تھا۔‘‘ (تاریخ علماء أندلس، ص : 350)
بعض لوگوں کا اسے عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک قرار دینا نِری جہالت ہے،کیونکہ اس عثمان بن محمد کے بارے میں خود صاحب ِکتاب نے قُرّی کہہ کر تعین کر دیا ہے۔ (دیکھیں صفحہ 103، 105)
لیکن علم و عقل سے عاری لوگوں نے اسے قُرّی کی بجائے قبری باور کرایا ۔حالانکہ عثمان بن محمد بن یوسف، قُرّی کے اساتذہ میں عبید اللہ بن یحییٰ موجود ہے۔ (تاریخ علماء أندلس، ص : 349)
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس سند میں قُرّی راوی ہے نہ کہ قبری اور وہ ہے عثمان بن محمد بن یوسف کذاب۔
٭ عثمان بن سوادہ راوی ’’مجہول‘‘ ہے۔ اس کے متعلق عبید اللہ بن یحییٰ سے منسوب توثیق والا قول اسی عثمان بن محمد قُرّی کذاب کا بیان کیا ہوا ہے، لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اگر اس کے علاوہ دنیا میں کسی کے پاس عثمان بن سوادہ کی توثیق والا قول موجود ہے تو وہ پیش کرے۔
٭ اس کے برعکس سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے باسند ِصحیح ثابت ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ؛ إِذَا قَامَ فِي الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِینَ یُکَبِّرُ لِلرُّکُوعِ، وَیَفْعَلُ ذٰلِکَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ، وَیَقُولُ : سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، وَلاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِي السُّجُودِ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے،جب رکوع کو جاتے تو بھی اسی طرح رفع الیدین فرماتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی رفع الیدین فرما کر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہیں فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري : 736، صحیح مسلم : 390)
٭ سلیمان شیبانی بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ؛ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ، فَلَمَّا رَکَعَ رَفَعَ یَدَیْہِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہُ رَفَعَ یَدَیْہِ، فَسَأَلْتُہُ، فَقَالَ: رَأَیْتُ أَبِي یَفْعَلُہُ، فَقَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِﷺ یَفْعَلُہُ۔
’’میں نے (سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے صاحبزادے) سالم کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا ۔میں نے اس بارے میں دریافت کیا توآپ نے فرمایا : میں نے اپنے والدِگرامی(سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ)کو ایسا کرتے دیکھا اور انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا ۔‘‘ (حدیث السراج : 34/2، 35، ح : 115، وسندہٗ صحیح)
یعنی سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے اور دوسروں کو بھی بتاتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ بیان بھی کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد رفع الیدین چھوڑ دیا تھا ،پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کریں بھی اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دیں؟
٭ سیدنا مالک بن حویرث اور سیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوئے، انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا تھا،جیسا کہ :
٭ ابو قلابہ تابعی بیان کرتے ہیں:
أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ صَنَعَ هَكَذَا
’’انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،جب آپ نماز پڑھتے تو ’اللہ اکبر ‘کہتے اور رفع الیدین کرتے ،جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہeایسے ہی رفع الیدین کیا کرتے تھے ۔‘‘ (صحیح البخاري : 102/1، ح : 737، صحیح مسلم : 167/1، ح : 391)
صحابیٔ رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا۔ ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے ۔
٭ سیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور ’اللہ اکبر ‘کہا۔ پھر کپڑا لپیٹ لیا، دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا۔جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے۔ پھر رفع الیدین کیا اور ’اللہ اکبر‘ کہا۔جب (رکوع کے بعد) ’سمع اللہ لمن حمدہ ‘کہا تو رفع الیدین کیا ۔سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔‘‘ (صحیح مسلم : 173/1، ح : 401)
واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ 9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ (عمدۃ القاري للعیني الحنفي : 274/5)
ایک وقت کے بعدسیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ موسم ِ سرما میں دوبارہ آئے اور پھر رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ (سنن أبي داوٗد : 727، وسندہٗ حسنٌ)
احناف کی دوغلی پالیسی :
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ،جو کہ جلسۂ استراحت والی سنت کے راوی ہیں، وہی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رفع الیدین والی حدیث کے بھی راوی ہیں۔ دو سجدوں کے بعد دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہے۔ احناف اس کے سنت ہونے کے منکر ہیں۔ جب انہیں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش کی جاتی ہے تو اسلاف ِامت کی مخالفت میں وہ کہتے ہیں کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں حاضر خدمت ہوئے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے تھے، لہٰذا یہ کوئی سنت نہیں۔ لیکن جب وہی صحابی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین بیان کرتے ہیں تو احناف اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، بلکہ اس کے مقابلے میں عدمِ رفع والی ضعیف اور جھوٹی روایات کا سہارا لینے لگتے ہیں۔
ان کے اسی تناقض کے بارے میں علامہ سندھی حنفی (م : 1138ھ) لکھتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ مَنْ قَالَ : إِنَّ ذٰلِکَ الْحَدِیثَ نَاسِخٌ رَفْعَ غَیْرِ تَکْبِیرَۃِ الِافْتِتَاحِ؛ فَہُوَ قَوْلٌ بِلَا دَلِیلٍ، بَلْ لَّوْ فُرِضَ فِي الْبَابِ نَسْخٌ؛ فَیَکُونُ الْأَمْرُ بِعَکْسِ مَا قَالُوا أَوْلٰی مِمَّا قَالُوا، فَإِنَّ مَالِکَ بْنَ الْحُوَیْرِثِ وَوَائِلَ بْنَ حُجْرٍ مِّنْ رُّوَاۃِ الرَّفْعِ مِمَّنْ صَلّٰی مَعَ النَّبِيِّﷺ آخِرَ عُمُرِہٖ؛ فَرِوَایَتُہُمَا الرَّفْعُ عِنْدَ الرُّکُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْہُ دَلِیلٌ عَلٰی تَأَخُّرِ الرَّفْعِ وَبُطْلَانِ دَعْوٰی نَسْخِہٖ، فَإِنْ کَانَ ہُنَاکَ نَسْخٌ فَیَنْبَغِي أَنْ یَّکُونَ الْمَنْسُوخُ تَرْکَ الرَّفْعِ، کَیْفَ وَقَدْ رَوٰی مَالِکٌ ہٰکَذَا جِلْسَۃُ الِاسْتِرَاحَۃِ؟ فَحَمَلُوہَا عَلٰی أَنَّہَا کَانَتْ فِي آخِرِ عُمُرِہٖ فِي سِنِّ الْکِبَرِ، فَہِیَ لَیْسَ مِمَّا فَعَلَہَا النَّبِيُّﷺ قَصْدًا، فَلَا تَکُونَ سُنَّۃً، وَہٰذَا یَقْتَضِي أَنْ لَّا یَکُونَ الرَّفْعُ الَّذِي رَوَاہُ ثَانِیًا مَّنْسُوخًا، لِکَوْنِہٖ آخِرَ عُمُرِہٖ عِنْدَہُمْ، فَالْقَوْلُ بِأَنَّہُ مَنْسُوخٌ قَرِیبٌ مِّنَ التَّنَاقُضِ، وَقَدْ قَالَ ﷺ لِمَالِکٍ وَّأَصْحَابِہٖ: ’صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلي۔
’’رہا کسی کا یہ کہنا کہ عدمِ رفع والی حدیث نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین کو منسوخ کر دیا ہے تو یہ بے دلیل قول ہے،بلکہ اگر رفع الیدین میں نسخ کو مان بھی لیا جائے تو زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ رفع الیدین کرنے کی بجائے ترکِ رفع الیدین کو منسوخ مانا جائے۔کیونکہ سیدنا مالک بن حویرث اور سیدنا وائل بن حجر،جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین کرنا بیان کیا۔ان کا رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہے اور اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔اگر کچھ منسوخ ہوا تووہ ترکِ رفع الیدین ہے۔احناف رفع الیدین کو کیسے منسوخ کہہ سکتے ہیں،حالانکہ اسی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے جلسہ ٔ استراحت والی حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑھاپے میں اور عمر کے آخری حصے کا فعل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیاری طور پر نہیں(بلکہ کمزوری کی وجہ سے)کیا، لہٰذا یہ سنت نہیں۔ احناف کے اس دعوے کا تقاضا ہے کہ رفع الیدین بھی منسوخ نہ ہو، جو اسی صحابی نے بیان کیا ہے، کیونکہ احناف کے ہاں یہ آخری عمر کا بیان ہے۔ الغرض احناف کا رفع الیدین کو منسوخ کہنا تناقض ہی ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے یہ بھی فرمایا کہ نماز اسی طرح پڑھنا،جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (حاشیۃ السندي علی ابن ماجہ : 282/1)
یعنی اگر اس جھوٹی روایت کی وجہ سے بالفرض والمحال یہ مان بھی لیا جائے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ آ کر رفع الیدین چھوڑ دیا تھا تو سیدنا مالک بن حویرث وسیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہما کی مذکورہ احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ رفع الیدین شروع کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کرنا،اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دینا اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا،اس بات کی بین دلیل ہے کہ رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہے۔
لہٰذا محدث محمد بن حارث خشنی (م: 361ھ) کا عثمان بن محمد قُرّی اور اس کی بیان کردہ عدمِ رفع والی حدیث کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ:
وَکَانَ یُحَدِّثُ بِحَدِیثٍ رَوَاہُ مُسْنَدًا فِي رَفْعِ الْیَدَیْنِ، وَھُوَ مِنْ غَرَائِبِ الْحَدِیثِ، وَأَرَاہُ مِنْ شَوَاذِّھَا ۔ ’’یہ رفع الیدین کے متعلق ایک مرفوع حدیث بیان کرتا تھا،جو کہ منکر ہے اور میں اسے اس کی بیان کردہ شاذ روایات میں شمار کرتا ہوں۔‘‘ (أخبار الفقہاء والمحدثین، ص : 214)
ایک جھوٹے اور ایک ’’مجہول‘‘ راوی کی بیان کردہ روایت کو صحیح، متواتر اور صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے عمل سے مؤید مجموعۂ احادیث کے مقابلے میں پیش کرنا کوئی علمی کارنامہ نہیں۔
- Posted by SHER at 7:59 PM
-
0
comments
- Labels: رفع الیدین, غلام مصطفی ظہیرامن پوری
کیا اہلحدیث نیا فرقہ ہے ؟ | سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمة اللہ علیہ
کیا اہلحدیث نیا فرقہ ہے ؟ | بدیع الدین شاہ راشدی رحمة اللہ علیہ
تاریخ اہلحدیث
مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی رحمة اللہ علیہ
جماعت اہلحدیث ایک قدیم جماعت ہے جس کے امام ‘مرشد اور قائد صرف رسو ل اللہ ﷺ ہیں ۔صحابہ کرام ؓ کے دور سے آج تک یہ جماعت موجود ہے ۔مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنے رسالہ ”اجتہاد وتقلید “میں لکھتے ہیں کہ اہلحدیث تو تمام صحابہ کرام ؓ تھے ۔امام عامر بن شرجیل جو کبار تابعین میں سے ہیں ‘ان کی پانچ سو صحابہ کرام ؓ سے ملاقات ہوئی ۔(تہذیب )اور وہ 48صحابہ کرام ؓ کے شاگرد تھے اور ان سے احادیث روایت کرتے تھے ۔(تاریخ بغدادی ‘تہذیب )وہ تقریباً 31ھ میں پیدا ہوئے اور تقیباً 110ھ میں انتقال ہوا ۔وہ پہلی اور دوسری صدی کی ابتداءکی شخصیت تھے ‘وہ فرماتے ہیں :
لَوِاستَقبَلتُ مِن اَمرِی مَااستَدبَرتُ مَا حَدَّثتُ اِلَّا بِمَا اَجمَعُ عَلَیہِ اَھلُ الحَدِیثِ(تذکرة الحفاظ)
یعنی جو کچھ میرے ذہن میں ہے اور میں نے سمجھا ہے اگر پہلے خیال میں آتا تو صرف وہ احادیث پڑھاتا جن پر اہلحدیث کا اجماع اور اتفاق ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام ؓ اور تابعین کے زمانے میں جماعت اہلحدیث موجود تھی ۔امام محمد بن مسلم بن شہاب الزہری المتوفی124ھ ایک دن باہر نکلے تو پکار کر کہا اے اہلحدیث تم کہاں ہو؟۔ پھر انہیں چار سو احادیث پڑھائیں ۔(تذکرہ )حنفی مذہب کے رکن عظیم امام محمد بن حسن شیبانی المتوفی اپنی مشہور کتا ب الموطا 363 باب الیمین مع الشاہد میں فرماتے ہیں :۔
فَکَانَ ابنُ الشِّھَابِ اَعلَمَ عِندَاَہلِ الحَدِیثِ بِالمَدِینَةِ مِن غَیرِہ فِیھَای
عنی امام ابن شہاب زہری مدینہ منورہ کے اہلحدیث کے نزدیک سب سے زیادہ عالم تھے ۔واضح ہو کہ اس وقت یعنی دوسری صدی میں مدینہ طیبہ میں جماعت اہلحدیث کامرکزی تھا ۔کیوں نہ ہو ان کے امام اعظم محمد ﷺ نے نبوت کے آخری دس سال وہاں گزارے اور اسلامی سلطنت قائم کی ۔حنفیت کے دوسرے رکن قاضی ابو یوسف المتوفی 182ھ ایک دن باہر نکلے اور انہوں نے اہلحدیث کو دیکھ کر فرمایا :۔
(ترجمہ )زمین پر تم سے بہتر کوئی نہیں کیوں کہ تم صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث سنتے اور سیکھتے ہو ۔امام حفص بن غیاث المتوفی 194ھ(تقریباً) فرماتے ہیں ”خیر اہل الدنیا“یعنی پوری دنیا میں بہترین جماعت اہلحدیث ہے ۔
اِمَامُ اللُّغَةِ وَالنَّحوِ خَلِیلُ بنُ اَحمَدَالفَرَاھِیدِیُّ المُتَوَفّٰی 164ھ(تقریباً ) فرماتے ہیں ۔اہلحدیث ولی اللہ ہیں ۔اگریہ ولی اللہ نہیں تو پھر اللہ کا کوئی ولی نہیں ہے ۔فقیہ الوقت امام سفیان ثوری ؒ المتوفی 162ھ( تقریباً ) فرماتے ہیں فرشتے آسما ن کے اور اہلحدیث زمین کے محافظ ہیں ۔یعنی یہی دین کے د عوت دینے والے اور تحریر و تقریر سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔نیز فرماتے ہیںان کے یہ نیک کافی ہے کہ وہ دیکھنے پڑھنے کے وقت درود شریف لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں ۔مشہور زاہد امام فضیل بن عیاض المتوفی 187ھ اہل حدیث کو دیکھ کر فرمانے لگے ۔ ”یَا وَرَثَةَ الاَنبِیَائِ“ یعنی اے انبیاءکے وارثو ! خلیفہ ہارون الرشید المتوفی 193ھ کہتے ہیں کہ چار صفات
مجھے چار جماعتوں میں ملیں ۔کفر بہیمہ میں ‘بحث اور جھگڑا ‘معتزلہ میں ‘جھوٹ ‘ رافضیوں میں اور حق ،اہلحدیث میں ۔امام محدث عبد اللہ بن مبارک ؒ المتوفی 180 ھ فرماتے ہیں کہ قیامت میں پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم اہل حدیث ہوں گے جب اپنے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں احادیث لکھنے کی سیاہی دیکھتے تو فرماتے کہ یہ دین کے درخت کے پودے ہیں ۔آج اگر چھوٹے ہیں تو آخر بڑے ہوں گے ۔امام حماد بن زید المتوفی179 ھ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور یہ آیت تلاوت کی فَلَو لَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرقَةِ مِّنھُم طَائِفَة لِّیَتَفَقَّھُوا فِی الدِّینِ وَ لِیُنذِرُ وا قَومَھُم اِذَا رَجَعُوا اِلَیھِم لَعَلَّھُم یَحذَرُوا یعنی ہر قوم سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کو سیکھیں ‘سمجھیں اور واپس آکر دوسروں کو سکھائیں او ڈرائیں تاکہ ان میں خوف پیدا ہو ۔مشہور زاہد ابراہیم بن ادھم المتوفی 168ھ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کے دوروں کے سبب اللہ تعالیٰ اس امت سے مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے ۔
امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان المتوفی ھ198تو ہمیشہ اہل حدیث کی صحبت سے مسرور اور لطف اندوز ہوتے تھے ۔
یہ اقوال شرف اصحاب الحدیث اہلحدیث سے لئے گئے ہیں ۔یہ تمام محدثین پہلی اور دوسری صدی کے ہیں ۔ان میں صحابہ کرام ؓ بھی ہیں تابعین ؒ اور کچھ تبع تابعین ؒ بھی ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی دونوں صدیوں یعنی خیر القرون کے زمانے میں جماعت اہلحدیث بڑی کثرت سے موجود اور معروف تھی ۔
تیسر ی صدی میں بھی یہ جماعت کثرت سے موجود تھی ۔امام شافعی ؒ المتوفی204 ھ فرماتے ہیں کسی اہلحدیث کو دیکھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ نبی ﷺ کو زندہ دیکھ رہا ہوں ۔(شرف)
امام عبد الرزاق صاحب المصنف المتوفی 213ھ امام ابوداﺅد الطیاسی المتوفی 204ھ اور امام احمد بن حنبل المتوفی 241ھ فرقوں والی حدیث جس میں ہے کہ یہ امت فرقے ہو گی ۔ان میں ایک جنت میں جائے گا کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ یہ جماعت اہلحدیث ہے ار فرماتے ہیں
لَیسَ قَوم عِندِی خَیر مِّن اَھلِ الحَدِیثِ لَیسَ یَعرِفُونَ اِلَّا الحَدِیثَ یعنی میرے نزدیک اہلحدیث سے زیادہ بہتر اور کوئی قوم نہیں کیوں کہ یہ حدیث کے سوا اور کوئی بات نہیں جانتے ۔جب ان سے کہا گیا کہ فلاں کہتے ہیں کہ اہلحدیث بری قوم ہے تو جواب میں کہا کہ یہ کہنے والے زندیق اور ملحد ہیں ۔
اسحق بن موسی الخطمی المتوفی224 ھ فرمتے ہیں کہ آیت یعنی وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُم دِینَھُمُ الَّذِی ارتَضٰی لَھُم(النور) اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پسند کئے ہوئے دین میں قوت عطاءفرمائے گا ۔اس کامصداق اہلحدیث ہیں کیوں کہ ان کی پیش کی ہوئی ایک ایک حدیث دنیا قبول کرتی ہے لیکن اہل الرائے کی حدیث مقبول نہیں ہوتی ۔
عبد اللہ بن داﺅد الخریبی المتوفی213 ھ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اساتذہ سے سنا کہ اہلحدیث اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دین کے امین ہیں یعنی علم وعمل میں رسول اللہ ﷺ کے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
ولید الکرابیسی المتوفی214 ھ نے انتقال کے وقت اپنی اولاد سے پوچھا کیا تم مجھے سچا سمجھتے ہو ؟۔انہوں نے کہا ہان ۔فرمایا جماعت
اہلحدیث کی صحبت میں رہنا کیوں کہ میں نے حق ان کے پاس دیکھا ہے ۔امام ابو رجاءقتیبہ بن سعید المتوفی
240ھ فرماتے ہیں جس شخص کو دیکھو کہ وہ اہلحدیث مثلاً یحییٰ بن سعید القطان ‘عبد الرحمن بن مہدی ‘احد بن حنبل ‘اسحق بن راہویہ رحمھم اللہ وغیرہ سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اہل سنت ہے اور جسے ان کی مخالفت کرتے دیکھو تو ان کو بدعتی سمجھو ۔
امام یزید بن ہارون المتوفی 206ھ اس حدیث کو کہ ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ وہ جماعت اہلحدیث ہے ۔امام ابو عبد اللہ الحمیدی المتوفی 213ھ‘امام ابوعبید القاسم بن سلام البغدادی المتوفی224 ھ‘امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین المتوفی233 ھ‘محمد بن سعد الواقدی المتوفی 230ھ‘امام ابوبکر بن ابی شیبہ المتوفی235 ھ‘امام مسلم المتوفی اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں یہاں اہلحدیث کا مذہب بیان کرتا ہوں ۔امام نسائی المتوفی230 ھ‘امام ابوداﺅد المتوفی 275ھ‘امام محمد بن نصر المروزی المتوفی294 ھ‘امام ابو اسحاق ابراہیم الحربی المتوفی285 ھ‘امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل المتوفی 290ھ‘امام بقی بن مخلد القرطبی الاندلسی المتوفی 276ھ‘جب مذہب اہلحدیث کی اشاعت کرنے لگے ‘تب اندلس کے بدعتیوں نے ان سے تعصب کرنا شروع کیا لیکن اندلس کے امیر عبد الرحمن نے ان کی حمایت کی اور علم کی اشاعت کرنے کے لئے کہا ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہاں مذہب اہلحدیث کا درخت لگا دیا ہے جسے دجال کے سوا کوئی نہیں نکال سکتا ۔(تذکرہ )
بحمد اللہ عیسائیوں کی حکومت کے باوفود اسپین میں آج تک اہلحدیث جماعت موجود ہے ۔
امام ابن قتیبہ المتوفی276 ھ جنہوں نے مشہور کتاب (تاویل مختلف الحدیث فی الرد علی اعداءاہل الحدیث)تصنیف کی ہے جس میں اہلحدیث کی شان زور وشور سے بیان کی گئی ہے اور اہل الرائے کی زبردست تردید کی گئی ہے ۔
امام ابوبکر بن ابی عاصم المتوفی280 ھ‘امام علی بن المدینی المتوفی234 ھ اس حدیث کہامت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ وہ جماعت اہل حدیث ہے ۔
مکی تصنیفات کی فہرست میں ایک کتاب مزہب المحدثین بھی ہے (علوم الحدیث )
عبد اللہ بن عثمان لقب عبدان المتوفی 222ھ جنہیں امام الحدیث کہا جاتا ہے (تہذیب)
حدیث ”طوبی للغرباء“کے بارے میں فرماتے ہیں اس سے متقدمین اہلحدیث مراد ہیں ۔احمد بن سنان القطان المتوفی258 ھ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو بدعتی ہے وہ اہلحدیث سے بغض رکھتا ہے ۔امام عثمان بن سعید الدارمی المتوفی 280ھ وغیر ہم مختلف علاقوں کے ہیں اور اپنے اپنے علاقے کے متعلق یہ خبر دیتے ہیں کہاس صدی میں ملک کے ہر حصے میں جماعت اہل حدیث بکثرت موجود تھی ۔
چوتھی صدی میں بھی جماعت اہلحدیث کا دور دورہ تھا ۔امام ابو احمد الحاکم المتوفی 278ھ جنہوں نے کتاب شعار اصحاب الحدیث تصنیف کر کے جماعت اہلحدیث کا تعارف کروایا اور ان کے عقائد اور مسائل ذکر کیے۔
امام ابو القاسم الطبرانی ‘امام ابن حبان البتی المتوی ھ ‘امام ابو الحسن الدار قطنی المتوفی385 ھ جن سے امام ابو الحسن اشعری المتوفی 320ھ نے مذہب اہلحدیث کی تعلیم حاصل کی ۔ان کی کتاب الابانة مشہور ہے ۔دوسری کتاب مقالات الاسلامیین بھی ہے ۔جس میں اہلحدیث کاتعارف ‘ان کے مسائل اور عقائد دلائل کے ساتھ ثابت کیے ہیں ۔
امام ابو الولید بن محمد المتوفی 340ھ سارے خراسان میں مذہب اہلحدیث کے امام سمجھے جاتے تھے(مختصر نیشا پور ) امام حافظ ابن عدی الجرجانی المتوفی375 ھ‘امام ابوبکر الاسماعیلی جو اہلحدیث کے عقائد بیان کرتے ہیں (تذکرہ )
امام ابو جعفر عقیلی المتوفی332 ھ‘ امام ابن مندہ المتوفی301 ھ‘ابو مزاحم الخاقانی المتوفی 325ھ‘نے اہلحدیث کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے ۔ایک شعر یہ ہے :۔
اَہلُ الحَدِیثِ ھُمُ النَّاجُنَ اِن عَمِلُوا
بِہ اِذَا مَا اَتیٰ عَن کُلِّ مُؤتَمِن
بِہ اِذَا مَا اَتیٰ عَن کُلِّ مُؤتَمِن
یعنی اہلحدیث ہی نجا ت یافتہ جماعت ہے ۔اگر وہ حدیث پر عامل رہے کیوں کہ یہ حدیث بذریعہ امانت داروں کے ہمارے پاس پہنچی ہے ۔ان کے علاوہ اور بھی بہت لوگ ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ صدی بھی جماعت کی رونق ‘تبلیغ ‘دعوت اور تحریک سے معروف ومعمور رہی۔۔۔۔۔پانچویں صدی میں بے شمار اہلحدیث گزرے ہیں ۔امام ابو عثمان الصابونی المتوفی 449ھ جن کی کتاب عقیدہ السلف اصحاب الحدیث مشہور ہے ۔جس میں اہلحدیث کا تعارف اور اس جماعت کی تحریک کا زور و شور بیان کیا ہے ۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن علی الصوری المتوفی 441ھ جن کا اہلحدیث کی شان میں اور ان کی طرف سے مدافعت میں مشہور قصیدہ ہے ۔امام حافظ ابو نعیم الاصفہانی المتوفی 430 ھ‘ امام ابو القاسم اللالکائی المتوفی 418ھ جن کی کتاب ”کتاب السنة “اہلحدیث کے عقائد کے سلسلے میں مشہور ہے ۔امام الحرمین ابو المعالی الجوینی المتوفی 486ھ جن کی تصنیف کی ہوئی کتاب الانتظار لاہل الحدیث ہے جس میں اہلحدیث پر اہل الرائے کے اعتراضات کی تردید ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث ایک دوسرے سے عقائد اور دین سیکھتے ہیں اور یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہے ۔یہی طریقہ دین کے سمجھنے کا ہے اور اہلحدیث نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔(تاریخ اہلحدیث )
چھٹی صدی میں ہر طر ف جماعت کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔امام امیر ابن ماکولا المتوفی516 ھ ‘قاضی ابوبکر ابن العزلی المتوفی 453ھ‘امام الحفاظ ابوطاہر سلفی المتوفی576 ھ امام محدث قاضی عیاض الیحصبی المتوفی 544ھ ‘امام حافظ بن عساکر الدمشقی المتوفی 571ھ‘سید شیخ عبد القادر جیلانی المتوفی 561ھ جنہوں نے اپنی کتاب غنیة الطالبین میں تصریح کی ہے ۔فرقوں میں نجات یافتہ فرقہ صرف اہلحدیث ہے ۔
یہی حال ساتویں صدی کا ہے مثلاً مجدد الدین ابن تیمیہ المتوفی622 ھ‘شیخ الاسلام کے دادا حافظ عبد العظیم المنذری المتوفی656 ھ‘شیخ جمال الدین ابن الصابونی المتوفی661 ھ‘حافظ ابوبکر ابن نقطہ المتوفی629 ھ‘حافظ ابو عبد اللہ ابن الدیبشی المتوفی 639ھ‘مورخ شہاب الدین یا قوت الرومی الحمری المتوفی662 ھ‘امام ابو السعادت مبارک ابن الاثیر الجزری المتوفی606 ھ‘وغیرہم
آٹھویں صدی میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ المتوفی728 ھ‘حافظ ابو الحجاج ضری المتوفی 742ھ‘حافظ ابن دقیق العید المتوفی702 ھ‘ حافظ ابن صلاح الدین صنعدی المتوفی764 ھ‘علامہ تاج الدین سبکی المتوفی771 ھ‘علامہ فخرالدین الزراوی الہندی المتوفی778 ھ کا صاف کہنا ہے کہ آیت فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (النحل )میں مطلق سوال کا ذکر ہے اسلئے کسی خاص شخص کا مذہب اختیار کرنا بدعت ہے اسی طرح تقلید حدیث کے آگے رکاوٹ بنتی ہے ۔(نزھة الخواطر )وغیرہم ۔
نویں صدی میں امام الفضل عدامتی المتوفی806 ھ‘حافظ نور الدین الھیثمی المتوفی807 ھ‘علامہ مجدد الدین الفیروز آبادی المتوفی827 ‘حافظ ابن حجر العسقلانی المتوفی852 ھ‘حافظ تقی الدین الفاسی المتوفی 832ھ‘حافظ بدر الدین العینی الحنفی المتوفی855 ھ‘وغیرہم ۔
دسویں صدی میں سلطان محمود بن محمد الگجراتی المتوفی945 ھ جن کے پاس اہل حدیث کا عام آنا جانا تھا ۔اس لئے اس علاقے میں حدیث کا رواج عام ہا حتی کہ اس علاقے کو یمن کے علاقے سے مشابہت دی جاتی تھی ۔(نزہة الخواطر )
گیارہویں صدی میں نجم الدین ابن غزی المتوفی 1061ھ‘تاج الدین ابن اسماعیل الگجراتی المتوفی 1007ھ جومکمل صحاح ستہ کے حافظ تھے (نزہة الخواطر )
قاضی نصیر الدین البرہانوی المتوفی 1031ھ جو قیاس قول اور رائے پر حدیث کو ترجیح دیتے تھے ۔(نزہة الخواطر )
بارہویں صدی میں شیخ محمد فاخر الہ آبادی المتوفی 1164ھ جنہوں نے رفع الیدین کی شان میں منظوم رسالہ لکھا اور شان اہلحدیث پر بھی ایک منظوم رسالہ لکھا (نزہة الخواطر )
دوم محمد معین ٹھٹوی المتوفی 1174ھ‘محدث امیر یمانی صنعانی المتوفی1182 ھ‘امام الہند شاہ ولی اللہ المتوفی1176 ھ‘علامہ ابو الحسن سندھی المتوفی 1136ھ جن کے صحاح سہ اور مسند احمد پر حاشے مشہور ہیں ۔علامہ محمد حیات سندھی المتوفی1136 ھ جن کا رسالہ تحفہ الانام فی العمل النبی ﷺ ہے ۔جس میں تقلید کا رد کیا گیا ہے اور مسلک اہلحدیث ثابت کیا ہے ۔(وغیر ہم )
تیرھویں صدی میں امام محدیث محمد بن علی الشوکانی الصنعانی المتوفی1250 ھ‘شاہ عبد العزیز محدث دہلوی المتوفی 1229ھ‘امام مجاہد شاہ اسمٰعیل شہید المتوفی 1246ھ‘علامہ خرم علی بلہوری المتوفی1271 ھ‘علامہ محمد حامدسندھی المتوفی1257 ھ‘امام الدعوة شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی المتوفی 1206ھ جن کے نام سے آج تک انگرز ڈرتے رہے ہیں ۔ان کے پوتے علامہ عبد الرحمن بن حسن المتوفی 1285ھ‘علامہ احمد طحطاوی حنفی المتوفی1231 ھ‘قاضی ثناءاللہ پاتی المتوفی1225 ھ‘علامہ حیدر علی طوکی المتوفی 1273ھ جنہوں نے رفع الیدین کے ثبوت میں ایک مستقل رسالہ لکھا ۔(نزہة الخواطر )
علامہ عبد العزیز پڑھیاروی ملتانی جن کی کتاب کوثر النبی ﷺ مشہور ہے ۔اس میں لکھتے ہیں وہ علماءجو انبیائے کرام کے وارث ہیں ۔وہ صرف اہلحدیث ہیں اور امام احمد سے ثابت کرتے ہیں کہ جس جماعت کے ہمیشہ حق پر ہونے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے جو پیشین گوئی فرمائی ‘وہ اہلحدیث ہیں وغیرہم ۔
چودھویں صدی میں لاتعداد اللہ کے بندے گزرے ہیں ۔شیخ الکل میاں سید نذیر حسین دہلوی المتوفی1320 ھ جنہوں نے پچاس برس سے زیادہ ایک جگہ پر بیٹھ کر حدیث کا درس دیا ۔دنیا میں علم حدیث والے زیادہ تر ان کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔آپ کی کتاب معیار الحق مسلک کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے ۔نواب صدیق حسن خان المتوفی 1307امجد ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی المتوفی 1340ھ جن کے رسالے اہلحدیث مذہب کے تعارف کے لئے مشہور ہیں ۔امام المفسرین الاستاذ ابو الوفا ثناءاللہ امرتسری المتوفی1377 ھ جن کی خدمات کو دنیا کے اہلحدیث ہمیشہ یاد کرتے رہتے ہیں ۔آپ کا ہفت روزہ اخبار اہلحدیث برسہا برس دنیا میں اپنے نام کے ساتھ چمکتا رہا ۔نواب وحید الزمان المتوفی1328 ھ محدث وقت علامہ حافظ عبد اللہ روپڑی المتوفی1384 ھ جن کا اخبار تنظیم اہلحدیث دعوت دین دیتا رہا ۔علامہ السیف القاطع محمد جونا گڑھی المتوفی1360 ھ جن کے محمدی نام سے بے شمار رسالے مشہور ہیں اور کئی برس تک آپ کا اخبار محمدی کام کرتا رہا ۔شیخ المشائخ محدث علامہ محمد بشیر سہسوانی المتوفی1306 ھ علامہ الزمان مولانا ابو القاسم سیف بنارسی المتوفی1361 ھ فخر المحدثین علامہ ابو العلی عبد الرحمن مبارکپوری المتوفی1353 ھ مناظر لاجواب شیخ عبد الرحیم رحیم آبادی المتوفی1320 ھ ‘علامہ اہل اللہ شیخ سراج الدین مدھو پوری المتوفی1380 ھ شیخ علامہ خلیل ہراس المتوفی 1392ھ علامہ سید رشید رضا مصری المتوفی 1353ھ مناظر اسلام احمد دین گکھڑوی ‘علامہ ابو المعالی محمود شکری آلوسی علامہ ابو سعید شرف الدین الدھلوی المتوفی 1381ھ علامہ شیخ عبد الستار دہلوی المتوفی1386 ھ امام الہند ابو الکلام آزاد المتوفی1377 ھ علامہ بدیع الزمان لکھنﺅی المتوفی1304 ھ مولانا انور شاہ کشمیری المتوفی1352 ھ علامہ عبد الحی بن فخر الدین اور دوسرے بھی بہت سے عالم اسی صدی میں گزرے ۔مثلاً علامہ عبدالتواب ملتانی ‘علامہ عبد الحق ملتانی ‘علامہ عبد الحق بہاولپوری ‘علامہ محمد اسمٰعیل سلفی ‘علامہ محمد داﺅد غزنوی ‘علامہ خان مہدی زماں ‘علامہ رشید احمد گنگوہی ‘محدث علامہ محمد حسین بٹالوی ‘قاضی محمد سلیمان منصوری ‘علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی وغیر ہم جن احصاءاور شمار ممکن نہیں ۔
اسی طرح موجودہ پندرھویں صدی ہمارے سامنے ہے جن میں بعض تو وفات پاچکے ہیں ۔مثلاً حافظ فتح محمد جہلمی مہاجر مکی ‘حافظ محمد محدث گوندلوی ‘مولانا محمد عمر ڈیپلائی شارح مشکوٰ ة سندھی‘ شیخ عبد اللہ بن حمید نجدی ‘مولانا محمد صادق سیالکوٹی ‘علامہ احسان الہٰی ظہیر شہیدؒ‘مولانا عبالخالق قدوسی شہید ؒ‘مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید ؒوغیرہم ۔ان کے علاوہ جو زندہ ہیں اور کام کر رہے ہیں ۔وہ لاتعداد ہیں ۔دنیا کے ہر ملک میں جماعت اہلحدیث موجود ہیں۔
اس طرح رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت تک امیری امت میں ایک جماعت حق پر قائم رہے گی ۔کسی کی بھی مخالفت یا دشمنی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔بحمد للہ !یہ جماعت تا ابد الاباد زندہ اور متحرک رہے گی (انشاءاللہ تعالیٰ)
دل شاد و بامراد رہیں مہرباں میرے
آباد حشر تک رہیں سب قدرداں میرے
آباد حشر تک رہیں سب قدرداں میرے
- Posted by SHER at 7:54 PM
-
0
comments
- Labels: Daawat Ehl hadees, بدیع الدین شاہ راشدی
بچوں کی تربیت کا مسنون طریقہ | عبد الله بن عبدالعزیز البکری
بچوں کی تربیت کا مسنون طریقہ | عبد الله بن عبدالعزیز البکری
ستمبر تا دسمبر ٢٠١٢
- Wednesday, April 20, 2016
- Posted by SHER at 1:33 PM
-
0
comments
- Labels: Al Bayan, تربیت, عبد الله بن عبدالعزیز البکری
عورت کا اعتکاف کہاں ؟ | الشیخ ارشاد الحق اثری
عورت کا اعتکاف کہاں ؟ | الشیخ ارشاد الحق اثری
سہ ماہی البیان ، کراچی ، جون تا اگست ٢٠١٢
- Posted by SHER at 1:24 PM
-
0
comments
- Labels: Al Bayan, ارشاد الحق اثری, اعتکاف
سوره الحجر میں "ذکر" سے کیا صرف قرآن مراد ہے ؟ |
سوره الحجر میں "ذکر" سے کیا صرف قرآن مراد ہے ؟ | مولانا اسماعیل سلفی
- Monday, April 11, 2016
- Posted by SHER at 11:39 PM
-
0
comments
- Labels: Surah Al-Hijr, حجیت حدیث, محمّد اسماعیل سلفی
مکثرین صحابہ کن کو کہا جاتا ہے ؟
مکثرین صحابہ کن کو کہا جاتا ہے ؟
یہ وہ صحابہ ہیں جن سے روایت کردہ احادیث کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے .. یہ سات صحابہ ہیں جن کے نام یہ ہیں
- حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ ٥٣٧٤ احادیث
- حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ٢٦٣٠ احادیث
- حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ ٢٢٨٦ احادیث
- حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہ ٢٢١٠ احادیث
- حضرت عبدالله بن عبّاس رضی الله عنہ ١٦٦٠ احادیث
- حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ ١٥٤٠ احادیث
- حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ ١١٧٠ احادیث
- Sunday, April 10, 2016
- Posted by SHER at 12:07 AM
-
0
comments
- Labels: کتابت حدیث, مکثرین
کیا ابو بکر رضی الله عنہ نے احادیث جلا دیں تھی ؟
کیا ابو بکر رضی الله عنہ نے احادیث جلا دیں تھی ؟ | مولانا اسماعیل سلفی
- Saturday, April 9, 2016
- Posted by SHER at 11:56 PM
-
0
comments
- Labels: ابوبکررضی الله عنہ, کتابت حدیث, محمّد اسماعیل سلفی
ظن کیا ہے ؟
ظن کیا ہے ؟ | مولانا اسماعیل سلفی
- Posted by SHER at 11:43 PM
-
0
comments
- Labels: حجیت حدیث, محمّد اسماعیل سلفی
کتابت حدیث صحابہ رضی الله کے دور میں
کتابت حدیث صحابہ رضی الله کے دور میں | مولانا اسماعیل سلفی رحمہ الله
- Posted by SHER at 11:24 PM
-
0
comments
- Labels: حجیت حدیث, کتابت حدیث, محمّد اسماعیل سلفی
حجیت حدیث سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
حجیت حدیث سیرت نبویﷺ کی روشنی میں | مولانا اسماعیل سلفی رحمہ الله
- Posted by SHER at 11:08 PM
-
0
comments
- Labels: حجیت حدیث, محمّد اسماعیل سلفی
حجیت حدیث کی تعریف
حجیت حدیث کی تعریف | مولانا محمّد اسماعیل سلفی رحمہ الله
مقالات حدیث از مولانا اسماعیل سلفی صفحہ ١٤٩ ناشر ام القریٰ پبلیکیشنز گوجرانوالہ
- Friday, April 8, 2016
- Posted by SHER at 1:46 PM
-
0
comments
- Labels: حجیت حدیث, محمّد اسماعیل سلفی
تفسیر قرآن | الشیخ عبد الستار حماد
تفسیر قرآن | الشیخ عبد الستار حماد
پہلا سپارہ
دوسرا سپارہ
تیسرا پارہ
چوتھا پارہ
- Tuesday, April 5, 2016
- Posted by SHER at 12:58 PM
-
0
comments
- Labels: Abdus Sattar Hamid, Summary of Quran
سیرت | حضرت ام سلیم رضی الله عنہ
سیرت | حضرت ام سلیم رضی الله عنہ
- Friday, March 25, 2016
- Posted by SHER at 10:30 PM
-
0
comments
- Labels: Abdullah Nasir Rehmani, Audio, حضرت ام سلیم رضی الله عنہ, سیرت
On Ashraf Ali Thanwi
تھانوی کا جناح کوڈنڈے کے زورپر نمازپڑھانا
https://t.co/eoFTTMZlDu
تھانوی کی پیدائش ہونا
https://t.co/I9gor05Oui pic.twitter.com/uMYGoJdlT7
— Aamir Mughal (@mughalbha) January 12, 2016
- Wednesday, January 13, 2016
- Posted by SHER at 12:14 PM
-
0
comments
- Labels: Ashraf Ali Thanwi, Deobandiat, Hanfiyat
Subscribe to:
Posts (Atom)